۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 377078
6 فروری 2022 - 19:57
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ امام نقی علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم جانتا ہے کہ ہم مصیبتوں اور مشکلات میں اس کے سوا کسی سے پناہ نہیں مانگتے اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اسی لئے جب بھی ہم اس سے کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہمیں عطا کرتا ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی। راوی کا بیان ہے کہ ایک دن میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مولا! متوکل (عباسی حاکم) نے مجھے ملازمت سے سبک دوش کر دیا ہے، میری روزی منقطع کر دی ہے، مجھے پریشان کر دیا ہے۔ میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں آپ کا چاہنے والا ہوں۔ مولا! آپ میری اس سے سفارش کر دیں تا کہ میرے حالات بہتر ہو جائیں۔

امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: انشاء اللہ تمہاری حاجت پوری ہو گی، تمہاری پریشانیاں دور ہوں گی۔

اسی رات متوکل کے ملازمین اس شخص کے گھر گئے اور کہا کہ حاکم نے تمہیں بلایا ہے۔ وہ فورا انکے ساتھ چل دیا، جب متوکل کے قصر کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ متوکل کا وزیر فتح بن خاقان استقبال کے لئے قصر کے باہر کھڑا ہے۔ اس نے تاخیر سے پہنچنے پر گلہ کیا اور متوکل کے پاس لے گیا۔ متوکل اسے دیکھتے ہی خوش ہو گیا اور بولا : ائے ابو موسیٰ! مجھ سے کیوں دور ہو گئے؟ بتاو مجھ پر تمہارا کتنا قرض ہے؟

ابوموسیٰ نے حساب کیا اور مبلغ بیان کیا تو متوکل نے حکم دیا کہ دوگنا رقم دی جائے۔ وہ شخص رقم لے کر خوش و خرم متوکل کے دربار سے باہر نکلا۔

جب وہ متوکل کے قصر سے باہر نکل گیا تو متوکل کا وزیر فتح بن خاقان بہت تیزی سے اس کے پاس آیا اور بولا:کوئی شک نہیں بلکہ مجھے مکمل یقین ہے کہ تم نے امام علی نقی علیہ السلام سے توسل کیا ہے اور انہوں نے تمہارے لئے دعا کی ہے۔ لہذا میری تم سے گذارش ہے کہ تم امام علی نقی علیہ السلام سے میری سفارش کر دو کہ وہ میرے لئے بھی دعا کر دیں۔

ابوموسیٰ متوکل کے دربار سے نکل کر سیدھے امام علی نقی علیہ السلام کے بیت الشرف پر پہنچا اور امام عالی مقام کو سلام کیا۔ امام علیہ السلام نے جواب سلام کے بعد فرمایا: تمہارے چہرے سے ظاہر ہے تم راضی اور خوش ہو۔ ابوموسیٰ نےپورا ماجرا بیان کیا تو امام نقی علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم جانتا ہے کہ ہم مصیبتوں اور مشکلات میں اس کے سوا کسی سے پناہ نہیں مانگتے اور اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ اسی لئے جب بھی ہم اس سے کچھ مانگتے ہیں تو وہ ہمیں عطا کرتا ہے۔ نیز ہمیں اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش بدلی تو کہیں خدا بھی اپنی روش نہ بدل دے۔

ابوموسیٰ کو یقین ہو گیا کہ امام علی نقی علیہ السلام کی دعا کے سبب ہی اسے یہ خوشی نصیب ہوئی ہے تو اسے متوکل کے وزیر فتح بن خاقان کی بات یاد آئی تو اس نے اسکی درخواست امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی۔ جسے امام علیہ السلام نے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ "فتح بن خاقان بظاہر خود کو ہمارا دوست بتاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سے دور ہے۔ دعا صرف اسی کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اللہ کی اطاعت میں مخلص ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور ہم اہلبیت کے حق کا اقرار کرتا ہو۔

(امالى طوسى،285 ح 555)

مذکورہ روایت میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں۔

۱. غرور و تکبر اور اقتصادی پابندی لگانا دشمنان اسلام و انسانیت کی تاریخ رہی ہے تا کہ کوئی ان کے خلاف آواز نہ بلند کر سکے۔ چاہے وہ کل باغ فدک غصب ہوا ہو یا آج عالمی استعمار کی پبندیاں اور سازشیں ہو۔

۲. مومنین جب بھی آزمائشوں کا شکار ہوں تو اس سے نجات پانے کے لئے اللہ سے دعا مانگیں، اسی پر توکل کریں اور اہلبیت علیہم السلام خصوصا حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے توسل بھی کریں۔

۳. صاحبان ایمان کے لئے دعا کرنا سیرت ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہے۔

۴. ‌نہ منافقوں کے لئے دعا کرنی چاہئیے اور نہ ہی اللہ منافقوں کے حق میں دعا قبول کرتا ہے۔ چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کیوں نہ دعا کریں۔ جیسا کہ سورہ منافقون کی چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : "سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْ‌تَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ‌ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ" ان (منافقوں) کے حق میں برابر ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا ان کے لئے استغفار نہ کریں اللہ انہیں ہر گز نہیں بخشے گا، بیشک اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

فتح بن خاقان اگرچہ ایک عالم، ادیب اور عقلمند شخص تھا لیکن وہ اپنی دنیا کے لئے متوکل جیسے فاسق و فاجر، ظالم و ستمگر سے اتنا قریب ہوا کہ اس ملعون (متوکل) نے اسے اپنا بھائی کہا اور دوسروں حتیٰ اپنے گھر والوں پر اسے فوقیت دی اور وہ اس کے تمام جرائم میں برابرا کا شریک تھا۔

جب متوکل کے بیٹے نے ترک غلاموں کے ساتھ اسے قتل کرنے کے لئے حملہ کیا تو فتح بن خاقان متوکل کی پاسبانی میں آگے بڑھا اور وہ بھی اپنے امیر متوکل کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .